684

گلگت بلتستان میں مسلح کارروائی کے ذریعے علیحدگی کی تحریک چلانے کی سازش بے نقاب ،

گلگت——— گلگت بلتستان میں مسلح کارروائی کے ذریعے علیحدگی کی تحریک چلانے کی سازش بے نقاب ہوگئی ، قوم پرست جماعت بلاورستان نیشنل فرنٹ( بی این ایف) کے سابق رہنما آفاق بالاور نے انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں انارکی پھیلانے کیلئے نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے افغانستان لے جاکر مسلح ٹریننگ دی جاتی ہے ، سیاسی جدوجہد کے نام پر بننے والی بی این ایف مکمل طور پر عسکری تنظیم میں تبدیل ہورہی ہے ، بی این ایف کے سربراہ عبدالحمید خان ، سنگے حسنین سکندر، سردار شوکت اور کرنل (ر) وجاہت خان بیرون ملک بیٹھ کر گلگت بلتستان اور پاکستان کیخلاف سازش کررہے ہیں ان کے پیچھے ملک دشمن طاقتیں موجود ہیں ، گلگت پریس کلب پریس کانفرنس کرتے ہوئے آفاق بالاور نے کہا کہ مجھ جیسے بہت سے طالبعلموں کو بی این ایف اور بی این ایس او کی اندرونی کہانی کا پتا نہیں ہوتا اور وہ علاقے کی بہتری سمجھ کر کام کرتا رہتا ہے مگر حقیقت میں ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں وطن عزیز پاکستان کیخلاف کام کر رہا ہوتا ہے اور دشمن ایجنسیوں کے کہنے پر چند لوگ اس علاقے کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہوتے ہیں اور ملک سے باہر بیٹھ کر دشمن سے پیسے لے کر ان کی ہدایات کے مطابق وہی احکامات نوجوان نسل کو دے کر بے وقوف بنایا جا رہا ہوتا ہے حالانکہ گلگت بلتستان تعمیروترقی ، تعلیم ، صحت ، روزگار اور سیاحت کے لحاظ سے پاکستان کے بہت سے علاقوں میں بہتر ہے لیکن جو کمی رہتی ہے اس کو آڑ بنا کر نوجوان نسل اور علاقے کے لوگوں کو پاکستان کیخلاف اکسایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ2010ء میں میں تعلیم کے سلسلے میں لاہورمیں تھا جب بی این ایف ، بی این ایس او عبدالحمید گروپ کی تنظیم سازی ہو رہی تھی تو مجھے بی این ایس او لاہور زون کا صدر منتخب کیا گیا اور کہا گیا کہ گلگت بلتستان سٹوڈنٹس کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا حل نکالنا ہے اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے باشندوں کو اپنے حقوق کے بارے میں شعور دلانے کے بارے میں کہا گیا ، میرے صدر منتخب ہونے کے بعد عبدالحمید خان نے خاص طور پر مبارکباد دی اور کہا کہ تم محنت اور لگن سے گلگت بلتستان کیلئے کام کرو اور کالج اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم گلگت بلتستان کے سٹوڈنٹس کو تنظیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرو اس مقصد کیلئے جتنا پیسہ چاہیے میں بھیج دوں گا کیونکہ مستقبل میں آپ جیسے طالبعلم ہی گلگت بلتستان کے غریب عوام کو غلامی سے آزادی دلوائیں گے لہٰذا ہمیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے جس کیلئے ہمیں منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد میں گا ہے بگا ہے قیادت کی طرف سے ملنے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشاں رہا ، اس کے بعد میں کراچی منتقل ہو گیا جہاں میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں ملازمت بھی کرتا رہا ایک دن ریسٹورنٹ والوں نے بتایا کہ کچھ سرکاری اہلکار میرا پوچھنے آئے اور انہوں نے بتایا کہ میرے اوپر گلگت بلتستان میں ایک ایف آئی آر درج ہے اور میں ان کو مطلوب ہوں جس سے میں خوفزدہ ہو گیا ، کراچی میں رہتے ہوئے میرا قوم پرست حلقوں سے رابطہ تھا اور انہی کے ذریعے نائلہ قادری بلوچ نامی ایک خاتون سے سوشل میڈیا پررابطہ ہوا اور مختصر عرصے میں ہمارا مستقل تعلق بن گیا میں نے اپنی پریشانی کا تذکرہ نائلہ بلوچ سے کر دیا تو اس نے مجھے کوئٹہ والے گھر جانے کا کہا تا کہ ادھر محفوظ رہوں اور کوئی مجھے تنگ نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2017ء میں بذریعہ بس کراچی سے کوئٹہ چلا گیا مجھے نائلہ قادری نے میر مرتضیٰ نامی بندے کا حوالہ دیا اور اس کا موبائل نمبر بھی دیا تھا کہا تھا کہ کوئٹہ میں یہ بندہ تمام معاملات برابر کرے گا، کوئٹہ پہنچنے پر میر مرتضیٰ مجھے ایک گھر لے گیا جو اس کے چچا میر ودود رئیسانی کا تھا کوئٹہ میں 15/20 دن اس گھر میں قیام کے دوران مجھے مرتضیٰ نے بتایا کہ یہاں پر حالات ٹھیک نہیں ہیں لہٰذا میں آپ کو اپنے دوسرے گھر چمن لے جاتا ہوں لیکن چمن میں پہنچ کر اس نے مجھے سردار نامی ایک بندے کے حوالے کیا اور بارڈر کراس کر کے افغانستان ویش منڈی سپین بولدک لے گیا جہاں عمر نامی بندے نے مجھے خوش آمدید کہا اور مجھے کمپلیکس میں لے گیا اور مجھے علیحدہ کمرہ دے دیا مجھے افغان سمیں دے دیں تا کہ میں لوگوں سے اپنا رابطہ بحال رکھ سکوں، اس دوران میری ملاقات میر ودود رئیسانی سے ہوئی جس نے مجھے خوش آمدید کہا اور گلگت بلتستان کے حقوق کی آواز اٹھانے پر شاباش دی اسی دوران میری نائلہ قادری سے واٹس اپ اور فیس بک پربات ہوتی رہی۔ ایک ہفتے بعد میردودورئیسانی نے ہدایات دے کرمیرا ایک ویڈیو پیغام بنوایا جس میں میںنے اپنانام،علاقہ اورتنظیم کابتاکرسی پیک کو جی جی میں مستردکیا اوراس کوجی بی کی عوام کے لئے نامناسب قراردیااوراس کوتنقید کانشانہ بنایا۔میردودورئیسائی نے یہ بھی بتایا کہ میری یہ ویڈیوجنیوامیں بھیجی جائے گی۔اور یہ بھی کہا کہ یہ ویڈیوعبدالحمید،وجاہت، سردار شوکت اورحسنین سکندر کے ساتھ میراتعلق مضبوط بنائے گی جوپہلے سے ہی اس ایجنڈے پرکام کررہے ہیں۔کچھ دنوں بعد میرودودرئیسانی اورنائلہ نے مجھے بتایا کہ میراافغان پاسپورٹ بناکر مجھے جنیوامیں بھجوادیا جائے گا جہاں پر مختلف پلیٹ فارم پرمجھے عبدالحمیداورحسنین سکندر کے ساتھ جی بی کے لئے آوازاٹھانے کے لئے بٹھایاجائے گا اوراس کے ساتھ مجھے ایک کثیررقم، گھرگاڑی وغیرہ کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔چنددن بعدمیرودودمیرے پاس آیا اورمجھے کہا کہ میں جی بی سے چارچاربندوں کے پانچ سے چھ گروپ تیارکروں جن کوافغانستان میں ٹریننگ دلاکر واپس جی بی میںبھیجیں گے اور ان کے ذریعے باقاعدہ علیحدگی کی تحریک کاآغازحملوں کے ساتھ ساتھ جی بی میں حکومت کے خلاف آوازاٹھاکرکریں گے جس کے لئے مجھے کہاگیا کہ ان بندوں کے نام کی لسٹ اورتفصیل بیان کروں جن میں اس کام کاجذبہ ہو۔اس لمحے مجھے احساس ہوناشروع ہوا کہ غلط ہاتھوں میں آچکاہوں جبکہ میں توصرف جی بی کے حقوق کے پرآوازاٹھانے کے ارادے سے آیاتھا لیکن دراصل جی بی کے حقوق کی آڑ میں یہ لوگ مجھے میری ہی سرزمین کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہے تھے لیکن میرے ضمیر نے اس کوگوارانہیں کیا تو میں نے وہاں سے بھاگنا مناسب سمجھا۔بذریعہ چمن اسلام آباد پہنچااوراپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیا جہاں سے پولیس نے مجھے عدالت میں پیش کیا اورایک لمبے عرصے کے لئے مجھے جیل بھیج دیاگیا اور میراکیس چلتا رہا اس کے بعد میری رہائی ہوئی۔جیل سے واپس آنے کے بعد میں نے یہ مناسب سمجھا کہ دشمن بنانے کی ناکام کوشش کی گئی اور میری ہی سرزمین کے خلاف استعمال کرنے کاسوچاتھا تومیں نے مناسب سمجھا کہ میں ان تمام عناصر کواپنی قوم اورنوجوانوں کے سامنے بے نقاب کروں گا تاکہ وہ کبھی بھی دشمن کے ہاتھوں میں آکرملک اور اپنے لوگوں کے خلاف کسی بہکاوے میں نہ آئیں اوروالدین کے لئے بھی ایک آگاہی ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کوان ہاتھوں میںکھیلنے سے بچاسکیں۔آفاق بلاور نے کہا کہ حقوق کی بات کرنابجا ہے مگر اس کی آڑ میں وطن کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنا غداری ہے۔قوم پرستی شجرہ ممنوعہ نہیں ہے لیکن بیرون ملک مقیم نام نہاد قوم پرستوں کے ہاتھوں استعمال ہوناقوم پرستی نہیں بلکہ قوم فروشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام سیاسی ومذہبی قوم پرست جماعت کے کارکنان اوراپنے قوم کے معماروں سے گزارش کروں گا کہ وہ حقوق کی بات کریں جو میں خود بھی کرتا ہوں اورکرتارہوں گا۔لیکن دائرے میں رہتے ہوئے کیونکہ ہمارے چند لفظوں کی وجہ سے دشمن عناصر کو فائدہ پہنچتا ہے۔ صوبائی اوروفاقی حکومتوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے کوحل کریں اور یہاں کے لوگوں کوبااختیار بنائیںتاکہ یہاں کے نوجوانوں میںپائے جانے والے احساس محرومی کاازالہ ہوسکے اوردشمن عناصر کو موقع نہ ملے کہ ہمارے نوجوان ان کے بہکاوے میں آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم پرستی جرم ہے نہ ہی شجر ممنوعہ، میں اپنی حیثیت سے علاقے کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتا رہوں گا لیکن عبدالحمید خان، کرنل (ر) وجاہت اور سنگے حسین جیسے قوم فروشوں سے کبھی اپنا تعلق نہیں جوڑوں گا، یہ لوگ قوم پرست نہیں بلکہ قوم فروش ہیں ہمارے نوجوان قوم فروشوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں