619

پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے’ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں

اسلام آباد ،،، مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنانے پر وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے ہٹا کر میرے خلاف جھوٹے’ بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنا دیئے گئے ہیں’ میں نے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی باگ ڈور منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کی اور اپناگھر ٹھیک کرنے کی بات کی’ سابق صدر آصف علی زرداری نے مجھے پرویز مشرف کے2007ء کے غیر آئینی اقدامات کی پارلیمنٹ کے ذریعے توثیق کرنے اور مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن میں نے انکار کردیا’ مجھے کہا گیا کہ بھاری پتھر کو اٹھانے کا ارادہ ترک کرو ‘ مشرف کا تو کچھ نہیں بگڑے کا لیکن آپ کے لئے مشکلات پیدا ہوجائیں گی لیکن میں نے مشورہ نما دھمکیوں کو مسترد کردیا’ ایک انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ نے مجھے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا پیغام بھجوایا اور کہا گیا کہ اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو طویل رخصت پر چلے جائو ‘ ڈکٹیٹر کو عدالتی کٹہرے میں لانا آسان کام نہیں ‘ قانون و انصاف کے سارے ہتھیار صرف اہل سیاست کے لئے بنے ہیں’ ہائی جیکر ‘ سسلین مافیا ‘ گاڈ فادر، وطن دشمن یا غدار کے القابات سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا’ میں پاکستان کا بیٹا ہوں اور اس مٹی کا ایک ایک ذرہ مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے’ مجھے کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں’ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے 5ارب ڈالر کی پیشکش ہوئی جسے مسترد کیا’ احتساب عدالت میں استغاثہ میرے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش کرسکا نہ کوئی الزام ثابت ہوا۔ وہ بدھ کو یہاں پنجاب ہائوس میں ہنگامی پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید’ سینیٹر پرویز رشید’ مریم نواز’ سینیٹرآصف کرمانی سمیت دیگر مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ موجود تھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں پانامہ پیپرز کی بنیاد پر بنائے گئے کھوکھلے ریفرنسز کی لمبی داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے مختصراً یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے ان مقدمات میں الجھانے کا حقیقی پس منظر کیا ہے؟ ان مقدموں’ ان ریفرنسز’ میری نااہلی اور پارٹی صدارت سے فراغت کے اسباب و محرکات کو میں ہی نہیں پاکستانی قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے اور مقدمات کا کھیل کھیلنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے نامہ اعمال کے اصل جرائم کیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نامی جرنیل نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ ہر دور کے آمروں کو خوش آمدید کہنے والے منصفوںنے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ پر بیت کرلی۔ 8سال بعد 3نومبر 2007 کو اس نے ایک بار پھر آئین توڑا’ ایمرجنسی کے نام پر ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ کے لگ بھگ جج صاحبان کو اپنے گھروں میں قید کردیا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرح کی شرمناک واردات کی نظیر شاید ہی ملتی ہو۔سیاستدانوں اور وزیراعظم کے منصب پر بیٹھنے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اور آج بھی ہورہا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں لیکن کوئی قانون نہ تو غداری کے مرتکب ڈکٹیٹر کو ہتھکڑی ڈال سکا نہ اسے ایک گھنٹے کے لئے جیل بھیج سکا۔ اس کی نوبت آئی بھی تو اس کے عالی شان محل نما فارم ہائوس کو سب جیل کا نام دے دیا گیا۔ نواز شریف نے کہا کہ میں اس فورم پر اس کھلی عدالت کے سامنے پوری تفصیل بتانے سے قاصر ہوں کہ مشرف پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کارروائی کو آگے بڑھانے پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے کس کس طرح کے دبائو کا نشانہ بننا پرا۔ اس کے باوجود جب میرے عزم میں کوئی کمزوری نہ آئی تو 2014 کے وسط میں انتخابات میں نام نہاد دھاندلی کا طوفان پوری شدت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس طوفان کے پیچھے بھی یہی محرک چھپا تھا کہ مشرف کے معاملے میں مجھے دبائو میں لایا جائے۔ میں دھرنوں سے صرف دو ماہ قبل مارچ 2014 میں اپنے دو رفقاء کے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملا تھا یہ ایک خوش گوار ملاقات تھی۔ انہوں نے دھاندلی کے موضوع پر کوئی بات کی نہ ہی کسی احتجاجی تحریک کا اشارہ دیا۔ لیکن ادھر پرویز مشرف کے مقدمے میں تیزی آئی اور ادھر اچانک لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد بظاہر دھاندلی کو موضوع بنا کر اسلام آباد میں دھرنوں کا فیصلہ کرلیا گیا۔ 14 اگست 2014 سے شروع ہونے والے یہ دھرنے چار ماہ جاری رہے۔ ان دھرنوں کے دوران جو جو کچھ ہوا وہ سب اس قوم کے سامنے ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کا مشترکہ مطالبہ صرف یہ تھا کہ وزیراعظم مستعفی ہوجائے۔ ان دھرنوں کا منصوبہ کیسے بنا طاہر القادری اور عمران خان کیسے یکجا ہوئے کس نے ان کے منہ میں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ ڈالا اور کون چار ماہ تک مسلسل ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا یہ باتیں اب کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں۔ عمران خان خود کھلے عام یہ اعلان کرتے رہے کہ بس ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ کون تھا وہ ایمپائر؟ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی مکمل پشت پناہی ان دھرنوںکو حاصل تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں