810

کے آئی یو نے سرکاری سکول اور کالجز کا فیڈرل بورڈ سے الحاق یکسر مسترد کردیا

گلگت ( پ ر)قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کی جانب سے سرکاری سکول اور کالجز کو فیڈرل بورڈ اسلام آباد سے الحاق کرانے کے فیصلے کو یکسر مسترد اور مذمت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی اور جی بی کے طلباء کے ساتھ سنگین ناانصافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کے آئی یونے امتحانات کے انعقاد کی ذمہ داری مانگ کے نہیں لائی ہے بلکہ صدراسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستخطوں سے جاری کے آئی یو آرڈر 2008کے حصہ 2شق 4، سب شق ivکے تحت کے آئی یو کو میٹرک سے پی ایچ ڈی سمیت ہر سطح کے امتحانات لینے ، ڈگری جاری کرنے ، ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورس کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور منجمنٹ سٹاف ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کے ایک وفد بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں محکمہ تعلیم کے ڈپٹی سیکریٹری کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کو زیر بحث لائے گئے اور اسے جی بی کے ہزاروں طلبہ وطالبات کے ساتھ مذاق اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے فی الفور منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی اپنے قیام سے اب تک گلگت بلتستان کے تمام سرکاری سکولز و کالجز سمیت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے امتحانات کے انعقاد کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھار ہی ہے اور آج تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہے جس سے گلگت بلتستان کے طلباء کے مستقبل کو نقصان پہنچا ہواور یہاں کے لوگوں کوامتحانات سے متعلق اسلام آباد یا ملک کے دیگر شہروں میں دربدرہونے سے نجات ملی ہے۔ اجلاس کو بتایاکہ اگر اس نوٹیفیکشن کی روشنی میں یہاں کے سکول و کالجز کا الحاق فیڈرل بورڈ سے کرایا جاتا ہے تو یونیورسٹی کو پہنچنے والے نقصانات اپنی جگہ یہاں کے طلباء ایک بار پھر آج سے 20سال پہلے درپیش مسائل کا شکار ہونگے اور چھوٹے چھوٹے مسئلے کیلئے اسلام آباد کا چکر لگانا پڑیں گے۔ دوسری طرف یونیورسٹی کو فیسوں کی مدمیں ذرائع آمدنی ختم ہوگی تو لا محالہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کی فیسوں میں اضافہ کرنا ناگزیر ہوگا۔ ریسرچ کی سرگرمیاں معطل ہونگی اور یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہوگا ۔ جس کا اثر براہ راست یہاں کے لوگوں پر پڑیں گے۔ کیونکہ حکومت پاکستان ہائرایجوکیشن کمیشن کے ذریعے کے آئی یو کو 55فیصد بجٹ دیتی ہے جبکہ باقی ماندہ بجٹ ان امتحانات کی فیسوں سے پورا ہوتاہے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کے یوآئی کا شعبہ امتحانات گذشتہ 15سالوں سے گلگت بلتستان کے دورافتادہ علاقوں تک کے طلبہ و طالبات کو گھر کی دہلیز پر امتحانات دینے کی سہولیات فراہم کررہی ہے ۔ امتحانات کا نگران عملہ، امتحانی پرچوں کی مارکنگ انہی سرکاری سکولز و کالجز کے اساتذہ کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔ اگر کسی سکول یا کالج کا نتیجہ خراب آتاہے تو اس کا ذمہ دار یونیورسٹی کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ کیونکہ کے آئی یو شعبہ امتحانات بطور سہولت کار فرائض انجام دیتا ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ محکمہ تعلیم کے اس غیر معقول اور یکطرفہ فیصلے سے گلگت بلتستان سے سالانہ کروڑوں روپے علاقے سے باہر چلاجائیگا۔ جس سے علاقہ معاشی بحران کا شکار ہوگا اور یہ خطے کے اداروں اور عوام کو امپاور کرنے کی حکومتی پالیسی کی منافی ہے۔ اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کے آئی یوے پاس اس وقت سو کے قریب پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں جنھوں نے امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کی بہترین جامعات سے تعلیم حاصل کی ہیں۔ اسی لیئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے کئی بار کے آئی یوکو تھینک ٹینک کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ امتحانات کی ذمہ داری کو کے آئی یوسے اٹھانے کا فیصلہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اجلاس کو بتایاگیا کہ موجودہ وائس چانسلر نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی شعبہ امتحانات میں اصلاحات کا آغاز کیا ہے ۔ اسے دیکھ کرتعلیم دشمن مافیا متحرک ہوئے ہیں۔اجلاس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ، فورس کمانڈر گلگت بلتستان، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور فی الفور محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری بوگس نوٹیفیکشن کو منسوخ قرار دے ۔ تاکہ علاقے تعلیمی ادارے اور نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ بصورت دیگر اس کے نتیجے میں پیداہونے والی صورتحال کی ذمہ داریونیورسٹی انتظامیہ نہیں ہوگی۔ اجلاس میں گلگت بلتستان کی سیاسی ، سماجی، مذہبی ، تعلیمی اور صحافتی حلقوں سے اپیل کی ہے کہ سب ملکر اس متعصبانہ فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ KIUاس فیصلے کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھائیگی۔ اور علاقہ و تعلیم دشمن عناصر کی یہ سازش کامیاب ہونے نہیں دیگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں