901

نیا سیاسی و مالی پیکیج۔۔۔۔۔۔۔ توقعات امکانات اور تحفظات ،گلگت بلتستان کو ملنے والی مالی و سیاسی پیکیج کے بارے میں اہم مضمون، خورشید احمد کے قلم سے

گلگت بلتستان کے لیے نئے سیاسی و مالی پیکیج کا معاملہ ابھی تک گہرے سمندروں میں ہچکولے کھا ہے، ایک ایسا کام جو وفاقی ھکومت کے دائرہ اختیار میں شامل تھا، اب بات قومی سلامتی کونسل کی منظوری تک جا پہنچی ہے، قومی سلامتی کونسل کے پچھلے اجلاس میں گلگت بلتستان اور فاٹا کے لیے مجوزہ پیکیج پر غور کیا گیا تھا اور یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس کو مزید بہتر بنایا جائے،گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں گلگت بلتستان کے لیے مالی و انتظامی پیکیج کی منظوری دی گئی ہے، امکان یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت جس کی مدت ختم ہونے میں محض دس دن باقی ہیں جاتے جاتے اس پیکیج کا اعلان کر دے گی، اب تک جو کچھ بھی سامنے آیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیا پیکیج کسی بھی طور عوامی خواہشات کا آئینہ دار نہیں، سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بڑی خواہش تھی کہ گلگت بلتستان کو بھی ملک گیر ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جائے، اس کے لیے انہوں نے اچھے خاصے اقدامات بھی کیے لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان کے عوام نے زبردست مزاحمت کی،اس کے خلاف تحریک برپا کی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت رک گئی، لیکن پسپائی اختیار نہیں کی، اس نے اس کے لیے نت نئے راستے تلاش کرنے شروع کر دیے، اس دوران ٹیکس کی وصولی بھی ہوتی رہی لیکن محدود پیمانے پر،زیادہ تر سرکاری ملازمین سے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے جس نئے پیکیج کی منظوری دی ہے اس کی خاص بات یہ ہی ٹیکس ہے جس میں مزید پانچ سال کی چھوٹ دی گئی، یہ اچھی بات ہے لیکن سوال پھر یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے ٹیکس کی وصولی کاجواز کیا ہے، آج سے اگر پانچ دس سال پہلے یہاں ٹیکس نہیں تھا تو آج کس لیے ہے،ن لیگ کی حکومت نے ٹیکس کا شوشا چھوڑااور اب ٹیکس میں پانچ سال کی چھوٹ دے کر احسان بھی جتلائے گی،ٹیکس کے حوالے سے بہت سی تحفظات موجود ہیں، ٹیکس کسی بھی علاقے سے اس لیے لیا جا تا ہے تا کہ وہ اس کے عوام کے فلاح و بہبوپر خرچ کیا جا سکے گلگت بلتستان سے جو ٹیکس لیا جا تا ہے، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں، یہ ٹیکس کتنا ہے اور کہاں ہے اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں،اس لیے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آ ئینی حصہ نہیں جس کی وجہ سے یہ این ایف سی ایوراڈ میں بھی شامل نہیں، ہر بجٹ میں گلگت بلتستان کو ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کی مد میں ایک رقم دے دی جاتی ہے کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا کہ آپ کا حصہ کتنا بنتا ہے اور ہم کتنا دے رہے ہیں،اب کی بار قومی سلامتی کمیٹی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ فاٹا کو ہر سال ایک سو ارب دیے جائیں گے،فا ٹا کا تو کام ہو گیا ہم اب تک اپنا مالی حق لینے سے کوسوں دور ہیں۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ گلگت بلتستان کونسل کو برقررا رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، سرتاج عزیز کمیٹی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل کو ختم کرنے اور اس کے اختیارات اسمبلی کو دینے کی سفارش کی تھی کونسل کے خاتمے کا اعلان بھی ہو چکا تھا لیکن اب اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ نئے پیکیج میں کونسل کا سٹیٹس کیا ہو گا، اس کے اختیارات کو محدود کیا جائے گا یا پھر یہ بدستور گلگت بلتستان اسمبلی اور حکومت پر سوار رہے گی۔اب تک جو صورت حال بنی ہے اس سے یہ ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ گلگت بلتستان پیکیج میں سے کچھ بھی نہیں نکلے گا، انیس بیس کے فرق کے ساتھ گلگت بلتستان کے موجودہ سیٹ اپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔اگرچہ اسلام آباد میں اس حواٍلے سے کافی سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں، مشیر وزیر اعظم بیرسٹر ظفر اللہ کو نئے پیکج کی حتمی تراش و خراش کا ٹاسک دیا گیا ہے، اطلاعات کے مطابق ان کا دفتر اتوار(20مئی) کو بھی کھلا رہا، حکومتی ذرائع کا تو یہ دعویٰ ہے کہ چند دن میں صدارتی آرڈر برائے گلگت بلتستان2018نافذ ہو جائے گا۔

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

لیکن گلگت بلتستان کی اپوزیشن اس پیکیج کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتی ہے، گلگت میں اس نے مختلف فورمز پر اس بارے میں اپنا موقف پیش کیا، احتجاج بھی کیااور میڈیا کے ذریعے بھی اپنے تحفظات کو مقتدر حلقوں تک پہنچانے کی کوشش کی، متحدہ اپوزشین نے اعلان کی تھا کہ وہ 19اور20مئی کو پارلیمنٹ کئے سامنے دھرنا دیں گے، گلگت بلتستان اپوزیشن جو دس سے بارہ ارکان پر مشتمل ہے، اس کے چند ارکان نے پہلے مرحلے میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سبزہ زار میں دھرنا دیا، پیر سے انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے مطالبات کی منظوری تک دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے، گلگت بلتستان کے نوجوان بھی ان کے ہمراہ موجود ہیں۔ دھرنے سے قبل نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع، تحریک انصاف کے راجہ جہاں زیب آزاد رکن نواز خان ناجی اور پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی جاوید حسین نے کہا کہ اگر آئینی صوبہ ممکن نہیں تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے، انہوں نے کہا کہ مجوزہ آرڈر میں فرد واحد کو سیاہ و سفید کا مالک بنا گیا ہے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، یہ کیسانظام ہے جس میں قانون سازی کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں حالانکہ ان کے پاس صرف انتظامی اختیارات ہونے چاہئیں، متحدہ اپوزشین نے کہا ہم نہیں چاہتے کہ حالات خراب ہوں لیکن اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، ایک ایسے وقت میں جب گلگت بلتستان سی پیک کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے، لازم ہے حکومت یہاں مسائل پیدا کرنے گریز کرے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ پے چیدہ ہے لیکن اس کو زیادہ پے چیدہ بنانے میں خود حکومتوں نے کردار ادا کیا، گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا فریق نہیں ہے اور ہے بھی، لیکن اس کو نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ وفاق نے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بنایا جا سکتا، دوسرے الفاظ میں گلگت بلتستان پانچواں آئینی صوبہ نہیں بنے گا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کسی شکل میں نمائندگی دی جا ئے گی، یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ گلگت بلتستان کو بتا دیا گیا تھا کہ بڑی حد تک اسے پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا ہو گا لیکن اس حقیقت کو بعض ارکان اسمبلی اور سیاسی جماعتیں قبول کرنے کو تیار نہیں،وہ مکرر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنایا جائے، اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ سو لوگ تیار ہو جائیں، میں اسلام آباد میں آئینی صوبے کے لیے دھرنا دینے کو تیار ہوں،اب ان کے امتحان کا وقت آگیا ہے، متحدہ اپوزیشن حسب وعدہ دھرنا دینے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہے، انہیں بھی چاہئے کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے آئینی معاملے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا ہو گا،جذباتی بیانات ا ور اعلانات سے عوام کی ہمدردیاں تو حاصل کی جا سکتی ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا، یہ بدقسمتی ہے کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے قبل گلگت بلتستان کبھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہے اور کبھی نہیں بھی رہے لیکن 1947میں یہاں کے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑی اس میں نہ کشمیریوں نے ان کی مدد کی اور نہ ہی پاکستان نے کوئی کردار ادا کیالیکن یہاں کے عوام میں پاکستان کی گٹھی میں پڑی ہوئی ہے، پاکستان میں شامل ہونا ان کا خواب تھا، اس لیے انہوں نے غیر مشروط طور پر پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا اور کراچی سے آنیو الے نمائندوں کا خوشی خوشی استقبال کیا لیکن دو سال بعد پاکستان نے معاہدہ کراچی کی آڑ میں کشمیری قیادت سے اس کا انتظام لے کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اور اس کو پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جا تا، ستر سال قبل س بات کا امکان موجود تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے، بھارت بھی نیم آمادہ تھا لیکن جلد ہی اس کی نیت میں فتور آگیا اور اس نے کشمیر کا اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا، وہ دن جائے آج کا آئے مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ساری توانائیاں آئینی صوبہ بننے پر صرف کر رہے ہیں،ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ اسلام آباد سے زیادہ سے زیادہ اختیارات لینے کے لیے منظم کوششوں کی بجائے ہمارے ارکان کونسل کو اپنی پڑی رہی، وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار تے رہے،ان کے رد عمل پر ہی کونسل کو ختم کر نے کا فیصلہ واپس لیا جا رہا ہے، بادی النظر میں کونسل کے ذریعے سے اسلام آباد کی حکومت حسب سابق اختیارات پر حاوی رہے گی، کونسل کوختم کر دیا جا تا تو ممکن تھا اسمبلی کے پاس اختیارات آ جاتے، اس خود غرضی کی قیمت ساری قوم کو ادا کرنا ہو گی،ہمارے نمائندے اگر قوم کے مفاد کی بجائے اپنے مفاد کے پیچھے بھاگتے رہے تو کیسے ہم آئینی حقوق لے سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے2009میں سیلف ایمپاورمنٹ آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا،اس نے صوبائی اسمبلی، کونسل کے علاوہ گورنر، وزیر اعلیٰ، کابینہ وغیرہ کا سیٹ اپ دیا، یہ اچھا اقدام ضرور تھا لیکن اس میں اس قدر نقائص تھے کہ جلد ہی عوام نے اس کو اپڈیٹ کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا، اس میں سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ کونسل کے ذریعے وفاق نے اپنی بالادستی اورحکمرانی اپنے پاس رکھی، عدلیہ کو بھی انتظامیہ کا دست نگر بنا دیا گیا، اعلیٰ ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ گورنر، وزیر اعلیٰ، وفاقی وزیر برائے امور کشمیر وغیرہ کے سپرد کر دی گئی، آج پیپلز پارٹی کے رہنما بڑھ چڑھ کر آئینی صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن 2009سے2013تک چار سال کے عرصے میں انہوں نے خود یہ کام نہیں کیا اب وہ اسے ن لیگ سے کرانے کے لیے شور شرابا کر رہے ہیں، یہ دراصل آئینی حقوق کی دکان پر سیاست چمکانے کی کوشش ہے، یہ قوم کے ساتھ ا خلاص نہیں بلکہ ایشو کو الجھانے کی کوشش ہے،انہیں اپنے طرز عمل سے رجوع کرنا ہو گا،دوسری طرف اس باب میں ن لیگ کی کار کردگی بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں۔ن لیگ کی حکومت نے گلگت بلتستان حکومت کو زیادہ با اختیار بنانے کا اعلان کیا تھا یہ اعلان کسی اور نے نہیں خود میاں نواز شریف نے کیا تھا، جس کے تحت اختیارات کو گلگت منتقل کرنا اور گلگت بلتستان کے عوام کی توقعات اور خواہشات کے مطابق ایک نیا پیکیج دینا تھا،اس مقصد کے لیے نواز شریف نے سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی، کمیٹی کے کام اور سفارشات کے بارے میں بھانت بھانت کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہیں لیکن کسی کو بھی سند تصدیق نہ مل سکی، ہمیں یہ حسن ظن ہے کہ وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمان نے اس باب میں پوری کوشش کی ہوگی کی عوام کی منشا کے مطابق کوئی پیکیج مل جائے لیکن آج جس پیکیج کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اس سے ان کو سیاسی فائدہ تو شاید نہ ہو البتہ نقصان کا خدشہ ضرور ہے، ایک تو پیکیج کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر کی گئی پھر اس میں اس قدر قطع و برید کی گئی کہ پیچھے کچھ نہیں بچا۔پیپلز پارٹی میں لاکھ خرابیاں سہی لیکن 2009کے پیکیج پر اس نے چند ماہ میں مشاورت مکمل کر کے اس کاااعلان کر دیا،اس کو قومی سلامتی کمیٹی کی منظوری کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔اس لیے کہ اس کے ارادے میں کھوٹ نہ تھی، یہ ہی کام ن لیگ کی حکومت تین سال میں نہیں کر سکی،کسے معلوم نہیں کہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان آج بھی گلگت بلتستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہے، اس کی مرضی کے بغیر گلگت بلتستان میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا، سرتاج عزیزنے تو آج تک گلگت بلتستان میں قدم تک نہیں رکھا، انہیں تو عوام کی خواہشات اور مطالبات کا براہ راست علم تک نہیں، برجیس طاہر پانچ سال سے گلگت بلتستان کے وزیر ہیں، وہ گورنر بھی رہے لیکن ان کی دلچسپی اپنے حلقے سے ہی رہی ہے، انہوں نے گلگت بلتستان کو پیکیج دینے کے لیے سرگرمی نہیں دکھائی، ان کے وزیر اعلیٰ سے اختلافات بھی ایک حقیقت ہیں، یہ افراد ہی نئے پیکیج کو بنانے والے ہیں ، اس ساری صورت حال میں گلگت بلتستان کے چودہ لاکھ عوام کو خسارہ ہی ہوا ہے،اس سارے معاملے کا افسوس نا ک پہلو یہ ہے کہ حکومت اوراپوزیشن ایک پیج پر نہیں، اپوزیشن نہ صرف حکومت کی کٹر مخالف ہے بلکہ اب وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بھی اتر آئی ہے، اس کا محرک بھی گلگت بلتستان پیکیج ہے، جس میں اپوزیشن کا خیال ہے کہ حفیظ الرحمان نے قوم سے غداری کی اور ودسروں کے ساتھ مل گئے اس لیے انہیں اب اقتدار سے ہٹانا ہو گا۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے اگلے دس پندرہ دن بہت اہم ہیں دیکھنا یہ ہے ہمیں کچھ ملتا ہے یا نہیں؟

ایک ایسے وقت میں جب گلگت بلتستان کے لیے پیکیج کو حتمی شکل دی جاری ہے، گلگت بلتستان حکومت کے مشیر نے اسلام آباد میں آٗؤ دیکھانہ تاؤ ایک پریس کانفرنس میں نئے پیکیج کے نفاذ کا اعلان کر دیا، مصدقہ اطلاعات یہ تھیں کہ مشیر وزیر اعظم برائے قانون وانصاف بیرسٹر ظفر اللہ کو نئے پیکج کی حتمی تراش و خراش کا ٹاسک دیا گیا ہے، وہ دن رات کام کر رہے ہیں، چند دن میں صدارتی آرڈر برائے گلگت بلتستان2018نافذ ہوگا، اس پر صدر کے دستخط بھی ہونے ہیں،کابینہ نے بھی اس کی منظوری دینا ہے، شمس میر نے نئے پیکیج کے بارے میں بتایا کہ اس میں گلگت بلتستان کی عدلیہ کو دیگر صوبوں کے مساوری کر دیا گیا ہے،چیف کورٹ اب ہائی کورٹ ہو گی، قانون ساز اسمبلی کا نیا نام گلگت بلتستان اسمبلی ہو گا، کونسل کے محکمے اس کو منتقل کر دیے گئے ہیں،ارسا اور ایکنک جیسے آئینی اداروں میں نمائندگی دے دی گئی ہے،سٹی زن ایکٹ1951کو لاگو کیا گیا ہے، تا ہم اس کو متحدہ اپوزیشن نے مسترد کر دیااور کہا جب تک اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ سے تحفظ نہیں دیا جا تا یہ ہمارے لیے بے ثمر ہے۔اس پر بھی چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں،افرا تفری میں اعلان کیوں؟ کیا یہ کام ایک مشیر کے لیول کا ہے، وزیر اعلیٰ نے خود یہ اعلان کیوں نہیں کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں