719

سائنس دان جان لیوا بیماری ایچ آئی وی یا ایڈز کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوگئے

سائنس دان جان لیوا بیماری ایچ آئی وی یا ایڈز کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوگئے یہ ویکسین بندروں کے اب انسانوں کے لیے بھی موثر ثابت ہوئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایڈز کی وبا پھیلنے کے 35 سال کے دوران اب تک صرف 5 ایچ آئی وی ویکسین بنائی گئی ہیں جنہیں تجرباتی طورپر انسانوں یا جانوروں پر آزمایا گیا ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی کی یہ نئی ویکسین بھی انہی پانچ ویکسینس میں سے ایک ہے۔
ممتاز طبی جریدے ’دی لینسٹ ‘ میں شائع ہونے والی ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ماہرین کے تحقیقی مقالے کے مطابق اس نئی تجرباتی ویکسین کو جب انسانوں اور بندروں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔
تجربے میں پہلے بندروں کو یہ ویکسین دی گئی اور جب انہیں ایچ آئی وی انفیکشن سے متاثر کیا گیا تو ان میں سے 67 فیصد بندر ایچ آئی وی سے محفوظ رہے۔ دوسری جانب 400 بالغ اور صحت مند افراد کو یہ ویکسین لگائی گئی تو ان کا امنیاتی نظام (جسم کا قدرتی دفاعی نظام) مضبوط ہوگیا۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ایچ آئی وی یا ایڈز وائرس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور یوں ایک ویکسین تمام افراد کو ایڈز سے نہیں بچاسکتی لیکن اس نئی ویکسین میں مختلف ایچ آئی وی وائرسوں کے ٹکڑے شامل کرکے انہیں ایک ملغوبہ بنایا گیا ہے جو کئی اقسام کے وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی بنا پر اسے موزائک ویکسین کا نام دیا گیا ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ڈین بروچ کہتے ہیں، ’ ابتدائی نتائج ایک اہم سنگِ میل ہے ہمارے نزدیک ایچ آئی وی ویکسین بنانا خود بہت بڑا چیلنج ہے اس ضمن میں ہمیں فیز ٹو بی آزمائش کے نتائج کا انتظار ہے جو اس کی افادیت کو ظاہر کریں گے‘۔
اسی لیے دنیا بھر کے ہزاروں سائنس داں گزشتہ 35 برس سے ایچ آئی وی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ویکسین تجربہ گاہ میں کامیاب اور بندروں پر بہترین ثابت ہوئی لیکن انسانوں پر ناکام ہوئی تاہم اب نئی موزائک ویکسین انسانوں پر بھی مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ اسے سات مختلف ویکسین ملاکر بنایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 393 تندرست افراد کو بھرتی کیا گیا جن کی عمرین 18 سے 55 سال تھی۔ وہ ایچ آئی وی سے پاک تھے اور فروری سے اکتوبر 2015ء تک انہیں امریکا، جنوبی امریکا، تھائی لینڈ اور مشرقی افریقا میں ویکسین دی گئی۔
کل 48 ہفتوں میں انہیں چار ویکسین کے کورس دیئے گئے تو انکشاف ہوا کہ ان میں ایچ آئی وی کے خلاف زبردست مزاحمت پیدا ہوئی جو ایک مثبت علامت ہے۔ تمام افراد میں ویکسین کے کچھ سائیڈ افیکٹس سامنے آئے جن میں دردِ سر، چکر، ڈائریا اور پانچ افراد میں کمر کا شدید درد پیدا ہوا۔
اسی دوران ویکسین کو ایسے 72 بندروں پر آزمایا گیا پہلے انہیں ویکسین دی گئی اور اس کے بعد سیمیئن ہیومن امیونوڈیفشینسی وائرس (ایس ایچ آئی وی) سے متاثر کرایا گیا جو ایچ آئی وی کی طرح کا جراثیم ہے۔ ان میں سے دو تہائی بندر ایچ آئی وی سے محفوظ رہے۔
اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں یہ ویکسین براہِ راست مریضوں پر آزمائی جائے گی اور مکمل امید ہے کہ اس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں 37 ملین افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں جب کہ ہر سال 1.8 ملین نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔ یہ مرض زیادہ تر مریض کے خون کی منتقلی اور غیر ازدواجی تعلقات استوار کرنے سے پھیلتا ہے۔ تاحال اس جان لیوا مرض کا علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ اس مرض سے بچنے کا واحد طریقہ صرف احتیاط ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں