745

منصوبے، فنڈز اور بجٹ

اداریھ ——– منصوبے، فنڈز اور بجٹ
گلگت بلتستان میں ترقی کے دعوے بہت کیے جاتے ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں مقابلہ ہے، دونوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کی زیادہ خدمت کی ہے، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ وزیر اعلیٰ سابق وزیر اعلیٰ سے کہیں زیادہ متحرک اور با صلاحیت ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں دونوں کی ایک حد تک ہی چلتی تھی، مہدی شاہ اور اب حفیظ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ عین اس وقت اسلام آباد میں بھی ان کی پارٹی کی حکومت تھی، اس کا وہ جس قدر فائدہ اٹھا سکتے تھے نہیں اٹھا یا،پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کو نیا سیٹ اپ دیا جس کی بہر حال تعریف کرنی چاہئے لیکن اس کے دور میں لوٹ مار کی غدر مچی رہی ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے بھی تو ان کو مکمل کرنے میں کسی نے سنجیدگی نہیں دکھائی، ہر مالی سال کے آخر میں ایک یا دوسرے بہانے ترقیاتی بجٹ میں کتوتی کی جاتی تھی، آج ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، حفیظ الرحمان کے دور میں وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو بڑی فیاضی سے منصوبے دیے لیکن کام شروع کی رفتار انتہائی مایوس کن ہے،ایسے ہی جیسے میاں صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں پانچ سو بیڈ کے سٹیٹ آف آرٹ50ہسپتال بنائیں گے یا پانچ لاکھ مکانا ت غریبوں کے لیے تعمیر کیے جائیں گے،27پریل کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کیاجس میں،گلگت بلتستان کے لیے 21ارب32کروڑ اور نوے لاکھ روپے کا ترقیاتی اور29۱رب50کروڑ کا غیر ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لیے سترہ منصوبوں کے لیے 4ارب32کروڑ90لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، ان میں آٹھ جاری منصوبوں کے لیے چار ارب 53کروڑ 40لاکھ روپے اور نو نئے منصوبوں کے لیے ایک ارب 50کروڑاور 50لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ جاری منصوبوں میں شغر تھنگ26میگا واٹ کے لیے20کروڑ،تھک پاور پراجیکٹ کے لیے10کروڑ،امراض قلب ہسپتال گلگت کے لیے20کروڑ، نلتر سولہ میگا واٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے75کروڑ، ہنزل بیس میگا واٹ منصوبے کے لیے 58کروڑ20لاکھ، ہرپو34میگا واٹ پن بجلی منصوبے کے لیے30کروڑ20 لاکھ،سکردو ٹیکنیکل انسٹی ٹویٹ فار بوائز کے لیے دس کروڑ،کنوداس سے نلتر ائیر فورس بیس تک روڈ کی تعمیر کے لیے30کروڑ رپے فراہم کیے جائیں گے۔ نو نئے منصوبوں میں حسن آباد ہنزہ 5میگا واٹ ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے دو کروڑ، عطا آباد کے مقام پر سیر گا ہ کی تعمیر کے لیے دس کروڑ،ریجنل گرڈ سٹیشن کے لیے تیس کروڑ، گلگت میڈیکل کالج کے لیے نو کروڑ اور پچاس لاکھ، عطا آباد کے قریب 32.5میگا واٹ ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے15کروڑ، گلگت شہر کے سیوریج سسٹم کے لیے40کروڑ، کار گاہ روڈ کی تعمیر کے لیے2oکروڑچلا س سے ناراں تک روڈ کی مرمت کے لیے پانچ کروڑ اور غواڑی کے مقام پر ایک میگا واٹ پن بجلی گھر کی تعمیر کے لیے بھی پانچ کروڑ روپے فراہم کرنے کی تجویز ہے، اس سے تیس میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔غیر ترقیاتی بجٹ میں سے چھ ارب،چار کروڑ پچاس لاکھ روپے گندم سبسڈی کے لیے مختص کیے گے ہیں،غیر ترقاتی بجٹ جس کو گرانٹ ان ایڈ کا نام دیا گیا ہے اس میں رواں سال کے مقابلے میں دو ارب کااضافہ کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے صوبہ دیمار میں بننے وال دیامر بھاشا ڈیم کے لیے اگلے مالی سال میں 23ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے، گلگت سکردو روڈ کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،بلتستان یونیورسٹی کے لیے25کروڑ روپے اور شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ تھری اور فورجی سروس کی فراہمی کے لیے 48کروڑ روپے فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے مریضوں کے لیے پانچ کروڑ روپے فراہم کیے جائیں گے، جب کہ ایم این سی ایچ پروگرام کے لیے 15کروڑ 49لاکھ روپے مختص کیے جائیں گے۔ گلگت میں ری سرچ سنٹر سپیس اپلی کیشن کی تعمیر کے لیے اگلے مالی سال کے بجٹ میں بیس کروڑ روپے فراہم کرنے کا عندیہ دیا گیا، بظاہر تو یہ تسلی بخش بجٹ ہے، گلگت بلتستان کے لیے منصوبوں کی تعداد بھی کم نہیں لیکن اگر پچھلے سال کے منصوبوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پی ایس ڈی پی میں شامل کئی ایک منصوبے شروع ہی نہیں ہوئے، ان کا بجٹ کسی دوسری مد میں استعمال کیا گیا، اگر شروع بھی ہوئے تو ان کے لیے فنڈز مسئلہ بنا رہا، یوں پی ایس ڈی پی جس پر مکمل طور پر وفاق کا ہولڈ ہے، اس میں گلگت بلتستان کے لیے اربوں کے منصوبے دکھائے جاتے ہیں لیکن برسر زمین کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دیا، ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو سب سے پہلے گلگت بلتستان کے لیے مختص فنڈ کی فراہمی اور پی ایس ڈی پی کے منصوبوں پر عمل درآمد کویقینی بنانا چاہیے، گلگت بلتستان میں ترقی کے لاکھ دعوے کیے جائیں لیکن اس کی رفتار وہ نہیں جس کی توقع تھی وزیر اعلیٰ لاکھ کوشش کے باوجود بھی بجلی کا بحران حل نہیں کر سکے، روڈز کی تعمیر اورماڈل سکولوں کا منصوبہ بھی ہنوز تشنہ تکمیل ہے، اگر ترقیاتی کاموں کا یہ ہی حال رہا تو عوام ان سے الیکشن میں ناراض ہوں گے، ان سے آئینی حقوق کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا، اگر وہ ترقیاتی کاموں کا اعلان کرانے کے بعد ان کے لیے فنڈز حاصل کرنے میں ناکام رہے تویہ ان کے دامن پر ایسا داغ ہو گا جس کو مٹاناان کے لیے آسان نہیں ہو گا، اس لیے لازم ہے آنے والے دوسال میں وہ ان منصوبوں کی تکمیل پر اپنی توانائیاں صرف کریں جن کا اب تک اعلان کیا گیا ہے اگر یہ منصوبے ہی مکمل ہو جائیں تو ان کی واہ واہ ہو جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں