700

سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دے چکی

ایک ایسے وقت میں جب گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کامعاملہ سپریم کورٹ میں ایک بارپھرفیصلہ کن موڑ پرہے شنیدہے کہ ایک ماہ کے اندر ہی عدالت سے فیصلہ آنے والا ہے اسی دورن ایک مرتبہ پھر سے کشمیری قیادت حرکت میں آگئی ہے اورگلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان صورتحال میں یہ جاننا ضروری ہے کہ آئینی اورقانونی طورپرآئینی سٹیٹس کی حیثیت کیا ہے اورگلگت بلتستان کا موقف کس حد تک مضبوط ہے اور الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ آخر کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں دائرآئینی درخواستوں میں سب سے اہم وہ پٹیشن بھی ہے جوگلگت بلتستان کونسل اوردیگر نے دائر کررکھی ہے۔1999ء میں مشہورزمانہ وہاب الخیری کیس میں سپریم کورٹ کااپنا فیصلہ ہے جس پر20سال گزرنے کے باوجود بھی عمل نہیں ہوسکااور گلگت بلتستان بارکونسل نے اسی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے درخواست دائرکررکھی ہے اوریہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت بھی ہے یہاں عوام کیلئے جانناضروری ہے کہ 1999ء میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے آخروہ کونسا فیصلہ دیاتھا کہ جس پرعملدرآمدکی ایک اورآئینی درخواست دائرکرنا پڑی۔28مئی 1999ء کواس وقت کے چیف جسٹس میاں اجمل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے الجہادٹرسٹ کیس کافیصلہ سنایابینچ میں چیف جسٹس میاں اجمل کے ساتھ جسٹس بشیرجہانگیری،جسٹس میمن قاضی،جسٹس چوہدری محمدعارف اور جسٹس منیراے شیخ شامل تھے۔ الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کو نہ صرف پاکستان کا حصہ قراردیا بلکہ وفاق کو حکم دیا کہ وہ گلگت بلتستان کو آئین میں موجود تمام تر بنیادی حقوق دینے کیلئے چھ ماہ کے اندر انتظامی اور قانونی اقدامات یقینی بنائیں، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قراردیاتھا کہ چونکہ پاکستان کے بہت سے قوانین بشمول سٹیزن شپ ایکٹ کا نفاذ گلگت بلتستان میں بھی ہے اس لیے یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے اور عوام پاکستان کے شہری ہیںتاہم آئین میں بنیادی حقوق کے دوکیٹیگریز کا فرق یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا، پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے گلگت بلتستان کے عوام کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر شہریوں کو حاصل ہیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کیلئے کسی بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں تاہم عدالت نے یہ بھی قراردیاکہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے وہاں کے عوام بھی ہر قسم کے ٹیکس اور لیویز دینے کے پابند ہونگے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاق پاکستان کو حکم دیا کہ وہ اگلے6ماہ کے اندر گلگت بلتستان کے لوگوں کو آئینی ضمانت کے ساتھ بنیادی حقوق دینے کے لئے انتظامی اورقانونی اقدامات اٹھائے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا کہ گلگت بلتستان کوبنیادی حقوق دینے کے لئے آئین میں ترمیم کے لئے متعلقہ قوانین مثلاً نوٹیفکیشن،آرڈر اوررولز میں ترمیم کی جائے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پٹیشن کے نکات کابھی حوالہ دیا جس میں کہاگیا تھا کہ گلگت اوربلتستان نیز ریاست ہائے نگر،ہنزہ اورداریل وغیرہ نے1947ء میں اپنے علاقوں کاالحاق پاکستان سے کیاچنانچہ نگرسٹیٹ کے سربراہ میرشوکت علی نے19نومبر1947ء کوالحاق کی دستاویزپاکستان کوپیش کی اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے قبول فرمایا۔شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) کے عوام نے غاصبوں سے جنگ کرکے اپنے علاقے آزادکرائے اوران کاالحاق پاکستان سے کیا اس طرح سے یہ علاقے عملاً اسی وقت سے پاکستان کے نظم ونسق سے وابستہ ہیںاورپاکستان کاحصہ ہیں۔پٹیشن میں الحاق کی دستاویزبھی شامل کی گئی ہے۔یواین سی پی کی تیسری عبوری رپورٹ میں ان علاقوں کے بارے میں جوموقف اختیار کیا وہ الحاق کے بعد کی حقیقی صورتحال کوواضح کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری1949ء پاکستان نے شمالی علاقوں پرکنٹرول حاصل کیا اس وقت یہ مقامی اتھارٹیزکے زیرانتظام تھے نہ کہ جموں وکشمیر گورنمنٹ کے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جب اٹارنی جنرل سے پٹیشن کے نکات پرسوال کیاگیا توانہوں نے ان دونوںباتوں کو قبول کیا ایک یہ کہ علاقے پاکستان کے زیرانتظام ہیں اور دوسرایہ بھی قبول کیا کہ ان علاقوں نے خودسے آزادی حاصل کی اورپاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں آگے جاکر قراردیا کہ جہاں جہاں وفاق کی عملدداری ہوگی وہاں سپریم کورٹ کادائرہ کار بھی ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہاگیا کہ اس کیس میں وفاق کاتحریری بیان ظاہر کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے شہری ہیں کیوں کہ ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈاورپاسپورٹ ہیں ان کے لئے تعلیمی اداروں میں خصوصی کوٹاموجود ہے وفاق نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان علاقوں میں پاکستان کی عملداری ہے جس پرعدالت نے”ڈی فیکٹو ڈاکٹرئن”کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب کسی خطے پرایک لمبے عرصے تک عملدداری رہتی ہے تووہ س کاحصہ بن جاتا ہے گلگت بلتستان پرپاکستان کی50سال سے عملداری ہے۔یہ پوزیشن بین الاقوامی کمیونٹی خصوصاًاقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے۔الجہادٹرسٹ کیس کے فیصلے میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں چندبنیادی چیزوں کی نشاندہی کرتے ہوئے وفاق کواہم احکامات دیئے ہیں عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی پوزیشن انتہائی حساس ہے کیونکہ ان کی سرحدیں چائنا،بھارت،تبت اورروس سے جاکر ملتی ہیں اس خطے کے ساتھ ماضی میں مختلف سلوک کیاگیا اس صورتحال کے باوجود عدالت یہ فیصلہ نہیں دے سکتی کہ اس خطے کو کس قسم کانظام حکومت دیناہے یہ کام پارلیمنٹ اورحکومت کامینڈیٹ ہے عدالت کانہیں ان سوالوں کاحل پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو نے تلاش کرنا ہے تاہم یہ عدالت زیادہ سے زیادہ اس بات کویقینی بناسکتی ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئین کے تحت تمام حقوق مل جائیں۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاق کوحکم دیا کہ وہ6ماہ کے اندر شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان)کے عوام کوبنیادی حقوق دینے کے لئے قانونی اورانتظامی اقدامات اٹھائے تاکہ آئین میں ضروری ترامیم کی جاسکیںاور اس بات کویقینی بنایاجاسکے کہ گلگت بلتستان کے عوام کواپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حق حکمرانی اورآزادعدلیہ تک رسائی مل سکے جو کہ آئین نے ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہوئی ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طورپرگلگت بلتستان کے عوام کوآئینی حقوق دینے کی ہدایت کی ہے اورپارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ترمیم کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے عدالت کے فیصلے میں آئین کاذکر ہے کسی آرڈرکاذکر نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں